Tabassum

Add To collaction

جوتی کی نوک


"شوہر اگر جوتی میں بھی دال رکھ کے دے تو کھا لینی چاہیے… یہاں تو اتنی آسائشوں میں بھی تیرے رونے نہیں ختم ہو رہے…" نانی تنک کر بولی .
ماں گھٹنوں میں منه ڈالے رو رہی تھی . اپنے زخمی وجود پر ، یا شاید قسمت پر…
"بس کردے باس کردے… مرد ذات تو ہوتی ہی غصے کی تیز ہے… یہ تو عورتوں کے کام ہوتے ہیں کے انہیں قابو میں رکھیں" . نانی کی سمجھ سے باہر تھا کے وہ اپنی بیوقوف بیٹی کو کیسے سمجھا تی جو ہر کچھ دن بعد روتی دھوتی میکے آئی بیٹھی ہوتی . .
ما رتا ہے مجھے ، گلیاں دیتا ہے . الزام لگاتا ہے گندے گندے… . ماں روتی جاتی
"تو کیا ہوا . چار چار وقت کا كھانا بھی تو دیتا ہے تجھے . اتنے بڑے سے گھر میں رہتی ہے تو…اتنی بڑی گاڑی میں گھومتی پھرتی ہے ، اچھا پہنتی ہے . گاؤں بھر کی لڑکیاں رشک کرتی ہیں تجھ پر . کرموں جلی ".
ماں كے رونے ہی ختم نا ہوتے . وہ روتی جاتی ، روتی جاتی .

بالاآخر نانای كے صبر جواب دے جاتا . چل اٹھ اب . اپنے گھر دفعہ ہو . تیرا بھائی آنے والا ہے . پھر وہ مجھ سے پوچھتا ہے کے یہ روز روز کیوں آجاتی ہے . سکوں سے رہنے دے ہمیں اور خود بھی اپنے گھر سکون سے رہ"…
میں وہاں سکون سے کیسے رہو ؟ میں وہاں مر جاؤنگی ماں .
تو مر جا… . یہاں سے دفعہ ہوجا بس ".

یہ ہر کچھ دن کی کہانی تھی . ابا اماں کو مارتا . وہ رو کے یہاں آتی . پھر یہاں سے نانی اسکو بھگاتی . کچھ دن خاموشی رہتی . پھر ابا کے ہاتھ کھجلا نے لگتے . پھر وہی سائیکل شروع ہوجاتا .
کبھی کبھی وہ سوچتی ماں کتنی ڈھیٹ ہے جو اتنی مار کھا کے بھی نہیں مرتی ؟ ہر بار جب ابا دروازہ بند کرکے ماں کو مارتا تو ماں کی چیخوں سے اسکا دِل دہل دہل جاتا . وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی . مگر چیخیں پھر بھی کسی چور رستے سے اسکے کانوں میں آہی جاتیں .
ہر بار اسکو لگتا کے اب بس اِس کمرے سے ماں کی لاش ہی باہر آئیگی . مگر شاید ماں مار کھا کے بہت سخت جان ہوگئی تھی . مر کے ہی نا دیتی .
پھر اک دن ، اک دن واقعی میں ماں مر گئی . شاید اس نے اپنا ڈھیٹ پن چھوڑ دیا تھا .
نانی کے ٹسوے دیکھ کے اس کا دِل چاہا کے بوڑھی نانی کی چٹیا کھینچ کے گھر سے نکل دے . جب ماں زندہ تھی تو جب کچھ کیوں نا کیا ؟
اپنے رعب و دبدبے والے خاندان کے سبھی مرد ، نامرد لگے اسے . ویسے گھر بھر کی عورتوں پر دھاڑتے پھرتے اور یہاں ابا کی زمین داری کے بھرم کے سا منے سب کی زبانوں پر قفل تھے . .
ماں كے جنازے کو دیکھ کے اسے کچھ بھی محسوس نا ہوا سب نے کہا کہ ماں مری ہے رولو ، مگر اسکی آنکھ سے اک آنسو نہیں ٹپکا .
ماں جیسے لوگوں کو مر ہی جانا چاہیے . ویسی بھی وہ آج نہیں مرتی تو کل مر جاتی . جو کل ہونا تھا وہ آج ہو گیا تو کس بات کا رونا ؟
مگر اس دن اس نے خود سے اک بات کا وعدہ کیا . میں کبھی ماں جیسی کمزور عورت نہیں بنوں گی…
+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +
شہر کی اک مشہور شہراہ پر گاڑی بھگاتی وہ آج بہت خوش لگ رہی تھی . کھلے بال ہوا سے اڑ رہے تھے . زیرلاب وہ کچھ گنگنا بھی رہی تھی .
آج اس نے اک بہت اہم کیس جیتا تھا . گھریلو تششد کا . عورت کو اک ظالم آدمی کے چنگل سے چھراتے اسے نا جانے کیوں ماں کی یاد آگئی . .
کاش…کاش ہمارے گاؤں میں بھی اس وقت ایسی سہولت ہوتی… .
پھر اسی یاد آیا کے کہ اگر گاؤں میں اس وقت یہ سہولت ہوتی تو گاؤں کے آدھے سے زیادہ مردوں کو سزا ہوگئی ہوتی . وہاں گھریلو تششد شادی شدہ زندگی کا اک اہم حصہ تھا .
اچانک سے فون بجا…کال کرنے والے کا نام دیکھ کر اسکی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی
ہیلو !
ہیلو کیا میں جیا مام سے بات کر رہا ہوں جنہوں نے میری اطلاعات کے مطابق اک ہائی پروفائل کیس جیتا ہے . ."
جی جی ، آپ انہی جیا میڈم سے بات کر رہے ہیں . اس کی آنکھوں میں چمک آگئی . اس نے گاڑی کے شیشے میں خود کو دیکھا . پر اعتماد ، نڈر عورت کا عکس اس کو سکون دے گیا
میں ماں جیسی نہیں بنوں گی…اسکا عہد کسی حد تک کامیاب رہا تھا . . .
"تو جیا میڈم کیا آپ آج رات ہم جیسے لفنگے کے ساتھ ڈنر پر جانے کا ٹائم نکال سکتی ہیں ؟"
او کے . آپ جیسے لفنگو ں کے لیے جیا میڈم کے پاس وقت ہی وقت ہے…
او کے پھر رات میں ملتے ہیں . بائے . دوسری طرف سے حنین نے کال کاٹ دی .
++++++++++++++++++
حنین صرف اسکا شوہر ہی نہیں اسکا بہت اچھا دوست بھی تھا . اسی لیے جب کچھ عرصے کی دوستی کے بعد اس نے اسے پروپوز کیا تو وہ انکار نہیں کرپائی .
شادی کے وقت اسکو صرف اک دَر تھا . . حنین بھی اسکے ابا کی طرح نکلا تو ؟ پھر ، پھر وہ کیا کرے گی ؟
اور وہ یہ خیال جھٹک دیتی . حنین اک کھلے ذہن کا مالک تھا . وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے…
اور اسکے اندازے بلكل ٹھیک ثابت ہوئے . زندگی بہت آرام سے گزر رہی تھی كے اچانک سے ماضی پھر سے اسکے سامنے آنے لگا…
++++++++++++++++
تراخ… . .
وہ آنکھیں پھاڑے حنین کو دیکھتی ہی رہ گئی . تھپڑ کی تکلیف سے زیادہ اپنے پسندیدہ انسان سے تھپڑ کھانے کی تکلییف تھی

وہ دونوں اک شادی سے آئے تھے . اور وہاں جیا کے اک کولیگ نے اسے پھولوں کا گلدستے دیا تھا . کیس جیتنے کی مبارک باد کے لیے . اور بس . .
حال میں تو حنین خاموش رہا . اسے لگا کے شاید اسکی طبیعت ٹھیک ك نا ہو . موسم بھی تو بدل رہا تھا . .
مگر گھر میں گھستے ہی جو زہر اسکی زبان اگلنا شروع ہوئی ، جو الزامات اس نے جیا پر لگانے شروع کیے . جیا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ وہی حنین ہے جو صرف نرمی سے بولتا ہے ۔

یقین اس وقت آیا جب اک زناٹے دار تھپڑ اسکے منه پڑا . پھر اور یقین اس وقت آیا جب اس نے بری طرح اسکے مارنا شروع کردیا… .

وہ چُپ چاپ پٹتی رہی .پٹتی رہی . مار کھاتے ہوئے اسے کئی بار لگا کے ماں کی روح اسکے سامنے کھڑی طنزیہ نظروں سے اسے پٹتے دیکھ رہی ہے .
"بڑے دعوے کرتی تھی کے میرے جیسی نہیں بنےگی . دیکھ . آج تو بلكل میرے ہی جیسے بن گئی."
کافی دیر بعد جاکر حنین کا ہاتھ رکا اور وہ اسے ٹھوکر مار کے کمرے سے چلا گیا
گھر میں خاموشی چھا گئی . کسی قبر جیسی خاموشی . وہ ساری رات وہاں بیٹھی اپنے زخمی وجود کو دیکھتی رہی . ماں کی روح بھی وہیں ساری رات اسے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتی رہی .
+++++++++++++++
----دوہفتو ں بعد---- 

"یہ عدالت ، حنین ولد احد کو گھریلو تششد کے جرم میں 5سال قید اور جرمانہ سناتی ہے…کارروائی برخاست کی جاتی ہے ".

سب لوگ عدالت سے باہر چلے گئے . وہ وہیں بیٹھی رہی . اسی خالی پن کے ساتھ جو ماں کے جنازے پر ہوا تھا . کچھ بھی محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا…
اس نے اپنا کیس خود ہی لڑا تھا . اِس لیے جیت کی امید تو اسے پہلے سے تھی . .

"سچ بتاؤں تو بڑی حیرت ہوئی مجھے !" اسکی وکییل دوست سامیہ اسکے پاس آئی .
کیوں ؟
تم اپنے شوہر کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو ؟
"سابقہ شوہر . طلاق کا کیس بھی فائل ہو چکا ہے ہمارا …"
"وہی نا … تم لوگوں کی تو اتنی اچھی انڈر اسٹیڈنگ تھی . حنین بھی اتنا اچھا تھا . میری سمجھ میں نہیں آرہا کے یہ کیسے ہو گیا ؟
اور میرے سمجھ میں یہ نہیں آرہا کے جو بھی مجھ سے مل رہا ہے وہ حنین کو اچھا کیسے کہہ رہا ہے ؟ کیا اس کا جرم نہیں دکھ رہا کسی کو ؟ اسکے آنکھوں میں وہ رات گھوم گئی .
"دیکھو جیا ، ایسی باتیں ہو جاتی ہے . انسان کو غصہ آجاتا ہے . . گھر اتنی سی باتوں پر برباد نہیں کیے جاتے".

"ایسی باتیں اسی لیے ہوتی ہیں کیوں کے ہَم ہونے دیتے ہیں . اور میرے لیے یہ اتنی سی بات نہیں ہے . اور اس کے علاوہ ایک اور بھی وجہ ہے" .
وہ ماں کی روح کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھتے ہوئے بولی . اس رات کی مار کے بعد سے ماں کی روح اسکے ساتھ ساتھ لگی تھی . اپنی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے تکتی رہتی . .
"کیا ؟"
"میں اپنی ماں جیسی نہیں ہوں . بلكل بھی نہیں ہوں "
اس نے مضبوط لہجے میں کہا اؤر ماں کی روح کی اور دیکھا . ماں کی روح غائب ہوچکی تھی .
وہاں اب کوئی نہیں تھا۔

   15
0 Comments